Featured post

SalaamOne سلام

SalaamOne ,  سلام   is a nonprofit e-Forum to promote peace among humanity, through understanding and tolerance of religions, cu...

امکانات اور اندیشے Possibilities & fears ISIS in Middle East

Bernard Lewis Plan for division of Middle East
http://aftabkhan-net.blogspot.com/2014/10/plan-to-carve-up-muslim-world.html?m=1
یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ داعش کے پیچھے‘ امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت‘ اس حقیقت کو قرار دیا جاتا ہے کہ داعش نے عراق اور شام کے اندر‘ تیل کے جن کنوئوں پر قبضہ کر رکھا ہے ‘وہاں صرف خام تیل نکل سکتا ہے۔داعش کے زیر اثر علاقوں میں کوئی ریفائنری موجود نہیں۔داعش ‘روزانہ 200ملین ڈالر کا جوخام تیل فروخت کرتی ہے‘ اسے امریکی رضا مندی کے بغیر کسی کو نہیں بیچا جا سکتا۔200ملین ڈالر کا تیل‘ روزانہ چوری چھپے بیچنا ممکن نہیں۔داعش کی نشوو نما اور تیز رفتار پھیلائو ‘کسی بڑی طاقت کی درپردہ مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ داعش کے پاس جدید ترین اسلحہ‘ امریکہ کی عملی اعانت کے بغیر نہیں پہنچ سکتا تھا۔داعش نے شامی اور عراقی فوج کے مقابلے میں جدید اسلحہ استعمال کر کے‘ جو تیز رفتار کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ وہ درپردہ امریکی اعانت کا ثبوت ہیں۔
------_---------------------------
جی 20کی حالیہ میٹنگ ختم ہونے پر‘ جو مشترکہ اعلامیہ تیار کیا جا رہا ہے اور آج (اتوار)کسی وقت جاری کر دیا جائے گا۔ خبر ہے کہ اس میں داعش کے ابھرتے ہوئے خطرے کا ذکر بھی کیا جائے گا۔بنیادی طور پر‘ یہ بحر الکاہل کے ملکوں کی تنظیم ہے‘ جہاں اسلام کے نام پر‘ دہشت گردی کرنے والی تنظیموں کا خاص اثر نہیں۔صرف انڈونیشیا میں دہشت گرد تنظیموں کا وجود پایا جاتا ہے لیکن یہ تنظیمیں مغرب یا شرق اوسط میں کارروائیوں کا خاص ریکارڈ نہیں رکھتیں۔اگر وہاں جمع ہونے والی بیس بڑی بڑی طاقتوں کو داعش کا سوال‘ اپنے مشترکہ اعلان میں شامل کرنا پڑ رہا ہے تو اس خطرے کی نوعیت کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔یہ ایسی تنظیم نہیں جسے نظر انداز کیا جا سکے۔جس طرح اچانک یہ معرض وجود میں آئی اور جتنی تیزی کے ساتھ‘ دو ملکو ں کا رقبہ چھین کر‘ اپنی ایک ریاست قائم کرنے میں کامیاب ہو گئی‘ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس کی جڑیں کہاں کہاں ہیں؟ اور وسائل کتنے ہیں؟ یہ بات عام طور پر کہی جاتی ہے کہ داعش کے پیچھے‘ امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔اس کا سب سے بڑا ثبوت‘ اس حقیقت کو قرار دیا جاتا ہے کہ داعش نے عراق اور شام کے اندر‘ تیل کے جن کنوئوں پر قبضہ کر رکھا ہے ‘وہاں صرف خام تیل نکل سکتا ہے۔داعش کے زیر اثر علاقوں میں کوئی ریفائنری موجود نہیں۔داعش ‘روزانہ 200ملین ڈالر کا جوخام تیل فروخت کرتی ہے‘ اسے امریکی رضا مندی کے بغیر کسی کو نہیں بیچا جا سکتا۔200ملین ڈالر کا تیل‘ روزانہ چوری چھپے بیچنا ممکن نہیں۔داعش کی نشوو نما اور تیز رفتار پھیلائو ‘کسی بڑی طاقت کی درپردہ مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ داعش کے پاس جدید ترین اسلحہ‘ امریکہ کی عملی اعانت کے بغیر نہیں پہنچ سکتا تھا۔داعش نے شامی اور عراقی فوج کے مقابلے میں جدید اسلحہ استعمال کر کے‘ جو تیز رفتار کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ وہ درپردہ امریکی اعانت کا ثبوت ہیں۔
اس سے پہلے‘ القاعدہ کے بارے میں یہ حقائق سامنے آچکے ہیں کہ اسامہ بن لادن ‘ سی آئی اے‘ کی دریافت تھے۔انہیں افغانستان میں دہشت گرد تنظیم کے مراکز قائم کرنے پر مامور کیا گیا تھا۔روایت ہے کہ اسامہ بن لادن نے جدید کمپیوٹر ٹیکنالوجی اور اسلحہ بنانے کے ماہرین کی خدمات حاصل کر رکھی تھیں اور تخریب کاری کے منصوبوں پر عملدرآمد کے لئے بھی انہیں‘ ماہرین کا تعاون حاصل تھا۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر ‘ دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور امریکہ کی شان و شوکت کا مظہر تھا۔ اس کی تباہی امریکی غرور کو خاک میں ملانے کے مترادف تھی۔ اسامہ بن لادن نے امریکی ‘ فخر و عظمت کے اس نشان کو مٹانے کا منصوبہ بنانے اور اس پر عمل کرنے کا جو حیرت انگیز کارنامہ سر انجام دیا ‘ اس پر امریکی آج بھی تلملا تے ہیں۔ اسامہ بن لادن سے انتقام لینے کے لئے‘ انہوں نے افغانستان کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا۔ عالم اسلام میں‘ تخریب کاری کا جال پھیلایا اور آخر کار‘ اسامہ بن لادن کو ہلاک کر کے‘ اپنی آتشِ انتقام کو ٹھنڈا
کیا۔ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے سانحہ کے بعد‘اسامہ اور امریکہ کا تعلق ‘دشمنی میں بدل گیا۔ القاعدہ کے موجودہ امیر‘ایمن الظواہری امریکہ کے بدترین دشمن سمجھے جاتے ہیں۔شام اور عراق میں بغاوتوں کی نئی لہر اٹھنے اوردونوں ملکوں کے ریاستی ڈھانچوں کی ٹوٹ پھوٹ دیکھ کر‘ امریکہ کو شرق اوسط میں تیزی سے بدلتے حالات پر تشویش پیدا ہوئی۔ عراق اور افغانستان کے تجربات کے بعد‘ امریکہ فیصلہ کر چکا ہے کہ وہ کسی بھی بیرونی لڑائی میں اپنی مسلح افواج کو‘ میدان جنگ میں نہیں اتارے گا،جسے بوٹ آن گرائونڈ کہا جاتا ہے لیکن وہ ایسے حساس خطے میں رونما ہونے والی تبدیلیوں سے لاتعلق بھی نہیں رہ سکتا۔ عام خیال یہی ہے کہ داعش کا وجود‘ اسی امریکی ضرورت کا نتیجہ ہے۔ داعش کی تنظیم دیکھتے ہی دیکھتے‘ قائم ہوئی۔ دنوں کے اندر‘ اسے اسلحہ اور افرادی قوت میسر آنے لگی۔ شام اور عراق دونوں کا ایک بڑا رقبہ ‘ داعش کے کنٹرول میں آگیا۔ اس کی اقتصادی طاقت میں تیزی رفتاری سے اضافہ ہونے لگا۔ دنیا بھر کے‘ دہشت گرد اور جنگجو‘ اس کے پرچم تلے جمع ہونے لگے۔پاکستانی دہشت گردوں نے بھی داعش کے ساتھ مل کر‘ انسانیت سوز مظالم میں حصہ لینا شروع کر دیا۔کافی عرصہ پہلے‘ تحریک طالبان پاکستان کے یہ دہشت گرد ‘لیبیا اور پھر شام میں کارروائیاں کرنے گئے تھے۔ انہی میں سے کچھ لوگ‘ داعش کے مقبوضہ علاقوں میں پہنچ کر‘ وحشت ناک انسانی قتل و غارت کی وارداتوں میں شریک ہونے لگے۔ اس تنظیم کا براہ راست مذہب سے خاص تعلق نہیں لیکن وہ اپنے مظالم کے لئے‘ اسلام کا نام استعمال کرتی ہے اور نام نہاد خلافت قائم کرنے کے لئے‘ ایک خلیفہ کا انتخاب بھی کر لیا گیا۔ یہ ابو بکر البغدادی ہیں۔ ان کا پس منظر ‘ کسی کو معلوم نہیں۔ مختلف روایات سننے میںآ رہی ہیں‘ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ البغدادی‘ کچھ عرصے کے لئے پاکستان میں بھی سرگرم رہ چکے ہیں۔ ان کا تعلق صدام کی فوج سے تھا۔ وہ باقاعدہ ایک فوجی افسر تھے۔جس طرح داعش نے تیز رفتاری سے دو ملکوں کے علاقوں پر قبضہ کر کے‘ ایک علیحدہ مملکت کے قیام کی بنیاد رکھی ہے‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ جغرافیائی حدوں سے آزاد‘ دہشت گرد تحریک نہیں بلکہ ایک الگ جغرافیائی وجود قائم کرنے کے راستے پر گامزن ہے اور اس کا بنیادی مقصد خطے‘ خصوصاً شرق اوسط میں‘ریاستی ڈھانچوں کو توڑ پھوڑ کے مفلوج کرنا ہے۔ اس کے مقاصدکے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ اسرائیلی دفاع کو دوام دینے کے لئے‘ پڑوس کی تمام عرب ریاستوں کی دفاعی قوت کو پارہ پارہ کر کے‘ رکھ دیا جائے۔لبیا‘ عراق ‘ شام‘یمن‘ تونس اور افغانستان کی فوجی طاقت (جو بھی تھی)منتشر کی جا چکی ہے۔مصر کے حکمران طبقوں کو ضرور اسرائیل کا حامی اور مددگار بنایا جا چکا ہے۔ اس کی فوجی طاقت آج بھی برقرار ہے۔اسرائیل کو نا قابل تسخیر بنانے کے لئے‘ مصر کی فوجی طاقت کو غیر موثر کرنا ضروری ہے۔اندازے لگا ئے جا رہے ہیں کہ اردن اورایران میں بد امنی پھیلا نے کے بعد‘ مصر کو نشانہ بنایا جائے گا۔اس کے بعد‘ شرق اوسط میں اسرائیل کو چیلنج کرنے کی طاقت‘ کسی پڑوسی ملک میں نہیں رہ جائے گی۔ اسرائیل کے لئے آخری خطرہ‘ فلسطینیوں کی آبادی ہے‘ جو اسرائیل کے اندر بھی بڑی تعداد میں موجود ہے‘ اور غزہ اور اردن کے مغربی کنارے پر بھی آباد ۔ اسرائیل کا آخری ہدف یہی ہے کہ فلسطینیوں کو اسرائیل کے اندر اور گردونواح سے نکال کر‘ دوسرے عرب ملکوں میں بھیجا جائے۔اسرائیل اپنے آپ کو اس وقت تک‘ غیر محفوظ سمجھتا ہے جب تک اس کی سرحدوں کے اندر اور ملحق علاقوں میں فلسطینی‘ قابل ذکر تعداد میں باقی ہیں۔فلسطینیوں کی آبادی میں اضافے کی رفتار کو اسرائیلی اپنے لئے ‘بہت بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پورے فلسطین پر قبضہ کر کے‘اپنی سلطنت کو محفوظ اور مستحکم کر لیا جائے۔یہ مقصد بڑی حد تک‘ پورا ہو چکا ہے۔ فلسطینی آبادی کا بہت بڑا حصہ‘ پہلے ہی بیرونی ملکوں میں منتقل ہو چکا ہے اور وہ ایک قوم کی حیثیت میں صرف اسرائیل کے اندر اور اس کی سرحدوںپر بیٹھے ہیں۔جب تک فلسطینی آبادی کو اس کے وطن سے بے دخل نہیں کر دیا جاتا‘ اسرائیل اپنے آپ کو نا مکمل سمجھتا رہے گا۔اسرائیل کے لئے ‘ دو بڑے خطرے ایسے ہیں جن کی موجودگی میں وہ اپنے آپ کو کبھی محفوظ نہیں سمجھے گا۔ اس کی سالمیت اور بقا کی آخری ضرورت یہ ہے کہ ایران اور پاکستان کی دفاعی طاقتوں کو غیر موثر کیا جائے ۔ پاکستان میں داعش کے نمودار ہونے کی ابتدائی نشانیاں ظاہر ہونے لگی ہیں ۔ جس تیز رفتاری سے اس کی کارروائیوں میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اسے دیکھ کر یہ اندازہ کرنا غلط نہ ہو گا کہ داعش پاکستان میں کسی بھی وقت متحرک ہو سکتی ہے۔واہگہ پر ہونے والا خوفناک دھماکہ‘ اس امر کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی دہشت گر د تنظیمیں ‘ آج بھی پاکستان کے اندر کارروائیاں کرنے کی اہل ہیں۔ شمالی وزیرستان کے آپریشن کے نتیجے میں‘ مقامی دہشت گردوں کی طاقت تو یقیناً منتشر ہوئی ہے لیکن جن دہشت گردوں کے ناتے‘ بیرون ملک موجود ہیں‘ ہماری ایجنسیاں ان کے نیٹ ورک کا سراغ پوری طرح نہیں لگا پائی ہیں۔کراچی میں دہشت گردی کے نظام کو ‘پوری طرح ختم نہیں کیا جا سکا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں ‘ دہشت گردوں کی پوری طاقت کا خاتمہ بھی نہیں ہوا۔پنجاب میں دہشت گرد‘ اپنے خفیہ ٹھکانوں کا سلسلہ پھیلاتے جا رہے ہیں۔ وہ اپنی پوری طاقت سے ‘ کب کارروائیاں شروع کریں گے؟ ہمیں اس کا اندازہ نہیں۔پاکستان کی طرف بڑھتے ہوئے خطرات کو روکا جا سکتا ہے۔اس کے لئے‘ پوری قوم کو تمام داخلی اختلافات بھلا کر‘ جذبہ جہاد کے ساتھ منظم اور متحرک ہونا پڑے گا۔فی الوقت ‘ ہمارے حالات کا رخ‘ استحکام کی طرف نہیں ہے۔
By Aamir Mehmud dunya. Com